ایسا لگتا ہے مجھے

ایسا لگتا ہے مجھے
اس کے اشکوں پہ بھی اک زخم ہے اور دل پر بھی
ایسا لگتا ہے
وہ برسات میں مرجھائی ہے
ایسا لگتا ہے
ستاروں کے کسی جھرمٹ میں
رات کے ہاتھوں ہوئی ہے برباد
اس کی آنکھوں پہ بھی اک زخم ہے
اور نیند پہ بھی
ایسا لگتا ہے کہ سپنوں نے اسے لوٹا ہے
اس کے ہنستے ہوئے
گیتوں پہ بھی اک زخم ہے
آواز پہ بھی
ایسا لگتا ہے جدائی نے اسے مارا ہے
ایسا لگتا ہے مجھے
وقت کی بے نام سی اک بستی میں
میں نے دیکھا ہے اسے
میں نے پکارا ہے اسے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *