ایک اک کر کے ہر نقاب اتار

ایک اک کر کے ہر نقاب اتار
اب مری جان سے عذاب اتار
خشک سالی کو مستقل تو نہ کر
آنکھ دی ہے تو کوئی خواب اتار
تیرا شاعر بھی جنگ پر نکلے
تیر و شمشیر کا حجاب اتار
یہ سمندر میں بھی تڑپتے ہیں
ان کے اندر کوئی سراب اتار
میرے دل کی بھی رت بدل مولا
ریگزاروں میں بھی سحاب اتار
آسماں سے کوئی گواہی دے
آسماں سے کوئی جواب اتار
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *