ایک دکھ سے دوسرے دکھ تک

ایک دکھ سے دوسرے دکھ تک
پھٹی ہوئی آنکھوں
فالج زدہ زبان
اور مفلوج بازوؤں کا یہ سفر
جو جانے کتنی صدیوں سے مجھے طے کر رہا ہے
آخر میری انتہا تک پہنچ کیوں نہیں جاتا
اور یہ آنسو
یہ سارے کے سارے آنسو
ایک ہی بار ایک ساتھ بہہ کیوں نہیں جاتے
میں نے جب سے اپنی کشتیاں جلا کے
راکھ سمندر میں بہا دی ہے
کوئی لہر کوئی موج
مجھے تسلی دینے کے لئے تیار نہیں
اور نہ ہی کوئی موسم یہ نوید سناتا دکھائی دیتا ہے
کہ میں طے کیا جا چکا ہوں
میں جو بہت تھک گیا ہوں
اور سفر جو کبھی تھکتا نہیں
مجھے طے کرتا چلا جا رہا ہے
ایک صحرا سے دوسرے صحرا تک
اور ایک خواب سے دوسرے خواب تک
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *