پاداش

پاداش
آسماں دیکھ لے
آشنا راستوں کی نگاہوں میں
نا آشنائی کے لہراتے سائے
وہی راستے
جن پہ چل چل کے ہم نے سہارے گنوائے، ستارے کہیں دور گم کر دیے
اور اشارے نہ سمجھے پلٹتے ہوئے وقت کے
آسماں
اجنبیت کا فن جیسے ان بے وفا راستوں ہی سے نکلا ہو
اور پھیلتا جا رہا ہو فضا میں امڈتے ہوئے بادلوں کی طرح
آبلوں کی طرح
ہم نے خوابوں کو بھی سنگ ریزوں کا عادی کیا تھا
مگر ریت آنکھوں میں پڑ جائے گی یہ تو سوچا نہ تھا
آسماں دیکھ لے
یہ وہی پیڑ ہیں
جن کے معصوم کمزور پودوں کو اپنی تمناؤں کا خون دے کر
نمو بخش دی
یہ وہی پیڑ ہیں جن کو خود ہم نے صدیوں محبت کی چھاؤں میں رکھا
جلے پر نہ جلنے دیا
دن نہ ڈھلنے دیا
یہ وہی پیڑ ہیں
جن کے دامن میں اب خود ہمارے لیے کوئی چھاؤں نہیں کوئی سایا نہیں
آسماں دیکھ لے
یہ وہی رات ہے جس کی خاطر سدا اپنی پاکیزگی کو زمانے کی نظروں سے ہم نے چھپائے رکھا
جس کی خاطر ہزاروں برس آنکھ کو چیرتی کتنی بے خوابیوں کو
پپوٹوں کے زخمی کناروں پہ ہم نے بسائے رکھا
جس کی خاطر سجائے رکھا نیند کو اپنے کمرے کی دیوار پر
بے بسی سے جُڑے طاقچوں کی طرح
ان بتوں کی طرح
جو کسی غیر کافر کے ہاتھوں میں مفتوح مندر میں
عبرت نشاں بن کے ٹوٹے پڑے ہوں
مرے آسماں دیکھ لے
اب وہی رات ہے
ہم کہ تنہائیوں کی صلیبوں پہ مصلوب
تاریکیوں کے زمانوں کی آوارگی سے تھکے
ماضیوں کی اذیت بھری اور المناک یادوں میں الجھے
اسے گر کسی دن بُلا بھیجتے ہیں تو یہ پاس آتی نہیں
ہاں وہی رات ہے
اب جو اجڑی ہوئی کم نگاہی کو بھی راس آتی نہیں
آسماں دیکھ لے
یہ وہی رات ہے
جس کے کندھے سے لگ کے کھڑی سرد دیوار چُپ
جس کے پہلو میں لیٹی فضا بھی کوئی بات کرتی نہیں
جس کے دامن میں ڈر کے سمٹتی ہوا بھی کوئی بات کرتی نہیں
آسماں
گھر کی ٹوٹی ہوئی سیڑھیاں
چھت سے لٹکی ہوئی لا تعلقی
تو آنگن میں پھوٹی بیابانیوں سے امڈتا ہوا شور بھی دیکھ لے
اور منڈیروں پہ صدیوں سے بیٹھی ہوئی
شامِ محروم کا زور بھی دیکھ لے
آسماں دیکھ لے
یہ وہی دل ہے جس کی ضدوں
جس کی ہٹ دھرمیوں نے ہمیں روز رُسوا کیا۔۔۔ ہم خوشی سے ہوئے
یہ وہی دل ہے
جس نے بھرے شہر میں ہم کو تنہا کیا۔۔۔ ہم خوشی سے ہوئے
یہ وہی دل ہے
جس سے ٹپکتے لہو سے ہتھیلی پہ مہندی لگائے پھرے
جس نے جھوٹی رُتوں میں بھی
اور بے نشاں موسموں میں بھی
جن جن سے بھی
جو جو وعدے کیے
ہم نبھائے پھرے
جس نے اکثر ہمارے پریشان کمزور شانوں پہ
گمراہ، بہکی ہوئی چاہتوں کی چٹانیں اتاریں
وفاؤں کے بوجھل پہاڑوں کو لا لا کے رکھا
مگر ہم اٹھائے پھرے
آج ہم بولتے ہیں تو سُنتا نہیں
ہم ذرا دیر جھوٹی تسلی کی خاطر
کوئی خواب لا کر اسے دیں تو بنتا نہیں
ہم جو صدیوں کی منہ زور وحشت سے گھبرا کے
اس کو بلائیں تو پہچانتا ہی نہیں
آسماں
یہ وہی دل ہے اب جو ہماری کسی بات کو مانتا ہی نہیں
ہم کسی غیر کے ہاتھ گر کوئی پیغام بھیجیں
تو کہتا ہے میں جانتا ہی نہیں
آسماں دیکھ لے
میری گردن سے چمٹا جہاں دیکھ لے
دیکھ کالے نصیبوں کی بازی گری
روز پہلو بدلتی ستم در ستم داستاں دیکھ لے
آسماں ، آسماں
دیکھ لے، دیکھ لے
میرے سر پہ پڑا امتحاں دیکھ لے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *