پِیّا رجھانے کی خاطر کبھی بننا کبھی سنورنا ہُو

پِیّا رجھانے کی خاطر کبھی بننا کبھی سنورنا ہُو
چاہے صدیوں ہاتھ نہ پکڑے مار کے بیٹھے دھرنا ہُو
رشتے تنہا تنہا موتی جیون کچی تَند پیا
جتنے پکے بندھن باندو اک دن ٹوٹ بکھرنا ہُو
جس کے ہاتھ میں ڈوری سب کی اسی کے ہاتھ نکیل
جو کرنا سو کرنا آخر جو بھرنا سو بھرنا ہُو
اپنے آپ سے بچنا مشکل اپنا آپ سمجھ لینا
اوروں کے کیا فکر میں آنا دردوں سے کیا ڈرنا ہُو
ایک پرانی بات سنو سب دیوانے یہ کہتے تھے
یار کی راہ میں زندہ رہنا یار کی راہ میں مرنا ہُو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *