پیوست ہیں جہاں بھی کہیں تیر بھول جا

پیوست ہیں جہاں بھی کہیں تیر بھول جا
نکلیں تو جانے کھینچ کے لائیں بدن سے کیا
اے دل مضطرب
درد کو درد رہنے دے اور
اپنی محرومیوں کو کسی عارضی سکھ سے واقف نہ کر
خواہشوں کی کٹھن راہ پر یا تمناؤں کے دلدلی شہر میں
خواب کی لاٹھیاں ٹیک کر چلنے والے
کھلی آنکھ کی منزلوں کے سفر پہ بہت مشکلوں میں پڑے ہیں
کھلی آنکھ جو رنج ہی رنج ہے سوگ ہی سوگ ہے
ایک مدت ہوئی
اک ستاروں بھری رات تھی
میں کسی شخص کی چاہتوں میں گھرا
شب کے پہلے کنارے سے خوابوں کے جنگل میں اترا
اسے کھوجتا کھوجتا ڈھونڈلایا تو خوش تھا مگر
ایک اس رات کی خواہش و خواب کے جرم میں
جاگتی اور کھلی آنکھ کی بستیاں ایک عرصہ تلک بارشوں میں مقید رہیں
اور پھر اس کے بعد آج تک میرے چاروں طرف
سوگ ہی سوگ ہے روگ ہی روگ ہے
اے دل مضطرب
درد کو درد رہنے دے
اور اپنی محرومیوں کو کسی عارضی سکھ سے واقف نہ کر
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *