جتنا آیا ہے ترے بعد نظر بارش میں

جتنا آیا ہے ترے بعد نظر بارش میں
اتنا سنسان نہ تھا پہلے نگر بارش میں
دھل گیا لمحوں میں سالوں کا پڑا گرد و غبار
ہو گئے اور بھی سر سبز شجر بارش میں
تجھ کو معلوم نہیں روئی ہوئی آنکھ کا غم
کر کے دیکھو تو کسی شام سفر بارش میں
کم تو پہلے بھی نہیں تھا مگر اے بچھڑے ہوئے
بڑھ گیا اور ترے غم کا اثر بارش میں
ہر طرف ایک اداسی سی اتر آتی ہے
کسی زندان میں ڈھل جاتا ہے گھر بارش میں
اے المناک گھٹاؤ اسے جا کر کہنا
تکتا رہتا ہے کوئی جانبِ در بارش میں
اس قدر رسمی ہے وہ شخص کہ بس ہولے سے
پوچھ لیتا ہے جناب آج کدھر بارش میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *