جہاں خواہشات کا خون ہوتا ہے رات دن

جہاں خواہشات کا خون ہوتا ہے رات دن
مجھے ایسی قتل گہوں میں رہنا ہے عمر بھر
ترا حادثات کا کھیل کتنا عجیب ہے
کہ سدا نحیف و نزار سے ہے مقابلہ
کہاں آ گئے ہیں یہ ہم یہاں کہاں آ گئے
یہ تو عدل ہی نہیں ہے نظام کے رام کا
ہمیں رات دن یہی سوچ ہے کہ نکل پڑیں
کسی بے سبب سے مقام پر ترے نام پر
یا مرا سفر ہی کچھ اس طرح کا سفر ہے یا
کوئی غم عجیب نصیب میں ہے لکھا ہوا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *