جیسے شب بھاگی ہے پیاسی رائیگاں

جیسے شب بھاگی ہے پیاسی رائیگاں
جائے گی یہ بدحواسی رائیگاں
مجھ پہ نظریں ہی نہیں ٹھہریں تری
تیری سب مردم شناسی رائیگاں
بارشوں میں شعر تک لکھا نہیں
ہو گئی ساری اداسی رائیگاں
آنسوؤں کو دے دیا ہے راستہ
درد کی ساری نکاسی رائیگاں
ہیں مری درویشیوں کے سامنے
سارے ہتھکنڈے سیاسی رائیگاں
اب تو تعبیریں بھی خالی ہو گئیں
جا مرے خوابوں کے باسی رائیگاں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *