حسنِ خیال یار بہانہ بنا لیا

حسنِ خیال یار بہانہ بنا لیا
جب چاہا موسموں کو سہانا بنا لیا
اک ہجرہے کہ جس میں بتا دی تمام عمر
اک پل تھا جس کو ہم نے زمانہ بنا لیا
بادل اتر کے آ گئے آنکھوں کے آس پاس
بارش نے میرے دل کو نشانہ بنا لیا
لوگوں کی کج نگاہی کا ڈر تھا اسی لیے
دل تھا نیا نِکور پرانا بنا لیا
بے گھر ہوئے تو گھر کی تمنا ہی چھوڑ دی
پیروں نے راستوں کو ٹھکانا بنا لیا
اس درجہ صبر پر تو اسے بھی یقیں نہ تھا
اُس نے ریاضتوں کو بھی طعنہ بنا لیا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *