خزاں

خزاں
مرے ہر سو خزاں اتری ہوئی ہے
یہ میں کس رُت میں تیری چاہتوں کو ڈھونڈنے نکلا
تمہارے ہجر کی پیلاہٹیں
اور دوپہر ساری کی ساری ہی یہاں اتری ہوئی ہے
مجھے یہ پیلی پیلی ساڑھیاں پہنے ہوئی شاخیں
تری سکھیاں لگی ہیں
اور مری تنہائیوں کے آسمانوں سے
تو ان کے درمیاں اتری ہوئی
تجھے میری اداسی کے پرندے رت سمجھتے ہیں
انہیں تو اچھی لگتی ہے
درختوں کے دریچوں سے مجھے سب جھانکتے ہیں
پوچھتے ہیں
تو کہاں اتری ہوئی ہے
یہاں اجڑے ہوئے بکھرے ہوئے پتے ہی پتے ہیں
تمہاری یاد کی زردی زمینوں پر جہاں اتری ہوئی ہے
مرے ہر سو خزاں اتری ہوئی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *