خون

خون
اپنے اپنے خون کے دباؤ میں آئے ہوئے
ہم لوگ
اپنے اپنے فاقہ زدہ حوصلوں کی ٹوٹی ہوئی کمروں پر
کھوکھلی خود فریبی کی تھپکیاں دیتے ہیں
آنکھیں درد سے کھل نہیں پاتیں
تو دل کھول کے خود کو دھوکہ دینے لگ جاتے ہیں
اپنے اپنے سپنوں میں اندھیرے جھونک کے
انگلیوں کی موم بتیاں جلاتے رہتے ہیں
ہم نے ان راستوں پر جانا چھوڑ دیا ہے
جہاں مر جانے والے محبوب
اپنے اپنے نام کے کتبے لکھوا کر رکھ گئے ہیں
ہمیں ہماری اپنی اپنی برداشت میں
اپنی اپنی سولیاں نظر آتی ہیں
ہماری اپنی اپنی سولیاں
ہمارے خون کا دباؤ ہمیں جس طرف کو
بہائے لیے جا رہا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *