داستان گو کی موت

داستان گو کی موت
کون آنکھوں کے تلے دفن حکایات پڑھے
کون لفظوں کے پس صوت معانی ڈھونڈے
کون کومل سی ہنسی کے پیچھے
دل کی کرلاٹ سنے
کون تصویر کے ماضی میں اتر کر دیکھے
کون دن رات کے پس منظر میں جمی برف کے صحراؤں کو محسوس کرے
ہم
کہ جو ہاتھوں میں دل لے کے پھرا کرتے تھے
آج اس دل میں کئی زخم لیے پھرتے ہیں
اور وہ ہاتھ بھی اب ساتھ کلائی کے نہیں
موم کے حوصلے
ماتھے پہ سجا کے پھرنا
جب سے دستور ہوا
کوئی مجبور ہوا
اور کوئی ایسا کہ مجبوری کے قابل بھی نہیں
ہم انہیں لوگوں کی بستی میں سرِ عام سجے پھرتے ہیں
جن کے جسموں پہ سجا کرتے ہیں کالے کپڑے
اور کوئی خوف نہیں
خوف کو باقی بچا ہی کیا ہے
رو رہے ہوتے ہیں اور دکھ بھی نہیں
مسکراتے ہیں مگر سکھ بھی نہیں
ذات سے نکلیں تو تم کو دیکھیں
گھات سے نکلو تو ہم کو دیکھو
ایسے ماحول میں اب تم ہی کہو
کون آنکھوں کے تلے دفن حکایات پڑھے
کون ایسا ہے کہ جو منہ سے ابھی نکلی نہیں بات پڑھے
کون یہ رات پڑھے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *