در در ہوئے سوالی سائیں

در در ہوئے سوالی سائیں
پھر بھی دامن خالی سائیں
صحرا صحرا ڈیرے ڈالے
جنگل جنگل کیے اجالے
شجر شجر بنیاد بنا کے
ڈھونڈا پتا پتا تجھ کو
کھوجی ڈالی ڈالی سائیں
در در ہوئے سوالی سائیں
پھر بھی دامن خالی سائیں
تیری خلقت کی بستی میں
ظرف کی اس کالی پستی میں
اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے
کس نے میرا دامن نوچا
کب دستار اچھالی سائیں
در در ہوئے سوالی سائیں
پھر بھی دامن خالی سائیں
لاکھ لڑائی لڑنا چاہوں
تجھ سے شکوہ کرنا چاہوں
لیکن کچھ بھی کر نہ پاؤں
میرا غم، غصہ، واویلا
سب ہیں خواب خیالی سائیں
در در ہوئے سوالی سائیں
پھر بھی دامن خالی سائیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *