درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے

درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے
درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے
ہم کہ جب بھی کسی بھولی ہوئی دہلیز سے ٹھوکر کھائیں
درد کے کمرے میں جا گرتے ہیں
نت نئے دھوکے میں مصروف رکھا ہے خود کو
ہم سمجھدار بھی، پاگل بھی بنے ہیں اکثر
ہم ہنسے بھی ہیں، اداسی بھی بہت جھیلی ہے
عشق کے شک میں بتائے ہیں بہت دن ہم نے
دل کو جھانسے بھی دیے روز بہت رونق کے
روح کو رنگ دیے ہیں لیکن
وہ جو آنسو کبھی آباد ہوا تھا نا نصیبوں کی کسی بستی میں
کھینچ لاتا رہا واپس اسی کمرے میں ہمیں
یہ الگ کمرہ کسی کھوہ کی مانند بہت گہرا ہے
اک عجب رنگ کی خاموشی ہے دیواروں پر
کونوں کھدروں میں بہت شور ہیں لاچاری کے
فرش پر ہجر کا غالیچہ بچھا رہتا ہے
چھت پہ جالے سے لگے ہیں کسی بیماری کے
صحن کے دکھ کی طرف۔۔۔
مین دروازے کے ڈر کی جانب۔۔۔
درد کا کمرہ الگ ہوتا ہے
ہم جہاں آتے ہیں
کمرہ بھی چلا آتا ہے
ہم چلے جائیں تو
کمرہ بھی چلا جاتا ہے۔۔۔ اس کے باسی کے لئے
خود فریبی سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *