دشت

دشت
بہت پیاس ہے
کاش کسی روز ہم موسلا دھار رو سکیں
اور اپنے آنسو پیئیں
اور پیاس بجھائیں
بہت دھوپ ہے
آبلے پیروں سے چلتے آنکھوں تک آگئے ہیں
آنکھوں سے گزر کر دل میں اتر آئیں گے
ایک تم ہی تو درخت تھے
تم ہی صحرا میں بدل گئے
روکھا سوکھا اور دہکتا ہوا صحرا
کس کی چھاؤں میں بیٹھیں
کس سراب سے بچیں
راستہ کیسے تلاش کریں
پپڑیاں جمے ہونٹ
خشک جلا ہوا گلا
اور لکڑی ہو چکی زبان
کسے پکاریں
کسے آواز دیں
اور پھر صحرا کب کسی کی سنتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *