رات بھر رویا ہوا

رات بھر رویا ہوا
رات بھر رویا ہوا
دکھ سے میں سویا ہوا
خواب میں کیا دیکھتا ہوں
موت سے بھاگا ہوا
عمر سے میں جاگا ہوا
گرتا ہوں ہر چار قدم پر ایسے
جس طرح زخمی کوئی آہوئے لاچار سر کوچہ وبازار
سسکتا ہوا تکتا ہوا
بے رحم شکاری کی طرح
اپنے ہی آپ میں کھویا ہوا
اپنے ہی آپ سے میں گویا ہوا
ہائے بیماری دل، وائے لاچاری دل
ہائے ستم کاری عالم کا تسلسل کہ ذرا
سانس لینا بھی بڑا جرم ہوا
بدنصیبی کا جہاں پہرا ہوا
صدیوں سے میں ٹھہرا ہوا
روح میں جھانکتا ہوں
دیکھتا ہوں سنتا ہوں، کچھ کہتا ہوں
اور دکھ ہے کہ فقط بہرا ہوا
اور بھی کچھ گہرا ہوا
خواب میں کیا دیکھتا ہوں
میں جو اک شہر تھا اب صحرا ہوا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *