موت ویران کر گیا ہے تُو
غم تو پہلے ہی کم نہ تھے فرحت
کیوں پریشان کر گیا ہے تُو
اب تجھے یاد ہم دلائیں کیا
عہد و پیمان کر گیا ہے تُو
سلطنت رنج و غم کی ہے اور پھر
ہم کو سلطان کر گیا ہے تُو
جانے والے تجھے خبر ہی نہیں
راہیں سنسان کر گیا ہے تُو
بخش کر عمر بھر کی بے چینی
مجھ پہ احسان کر گیا ہے تُو
گردش خوں بھی لگ رہی ہے بوجھ
اتنا ہلکان کر گیا ہے تُو
جانے والا نہیں تھا میں لیکن
میرا سامان کر گیا ہے تُو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)