عارف شفیق کے لئے ایک نظم

عارف شفیق کے لئے ایک نظم
پردیس ایک دکھ بھرا قیام ہے
میں بہت تنہا ہوں
اور ایک ایسے بچے کی طرح ہوں
جو اپنی اور پرائی گود کے فرق کو محسوس کر سکتا ہے
لیکن بتا نہیں سکتا
میری مٹی مجھے پہچاننا چاہتی ہے
تو لوگ میرے چہرے پر اجنبیت مل دیتے ہں
میرا وطن مجھے تھامنا چاہتا ہے
اور کمزور پڑ جاتا ہے
میں اپنے دل کے پڑوس میں
جدائیوں کا مارا
اور بچھڑا ہوا پرندہ
کہاں سے آیا ہوں
پوچھتا پھرتا ہوں
مجھے اپنے وطن کی قسم
دنیا کی سب سے بڑی بے بسی اور مجبوری پردیس ہے
میرا بخت دیکھو!
ہوائیں مجھے کہتی ہیں
ہوائیں مجھ سے پوچھتی ہیں
اتنا گھبرایا ہوا وطن چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
ہوا کی آواز اذیت کا وہ شجر ہے
جو میری سماعتوں کی بے چارگی کے سرطان میں اُگ آیا ہے
اور کہتا ہے
گھونسلے عارضی ہوا کرتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *