کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو تو

کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو تو
کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو تو
خیال رکھنا
ہوائیں، بادل، فضائیں، موسم، خیال
چہرے بدل بدل کر تمہیں ملیں گے
تو لمحہ لمحہ بدلتے رنگوں کے شوخ دھوکےمیں آ نہ جانا
کبھی جو چاروں طرف تمہارے
کرن کرن اپنا خواب آسا بدن نکھارے
زمیں پہ اترے
تو دھندلکوں میں سما نہ جانا
کبھی جو آنکھوں میں چاند ہنس ہنس کے چاندنی کا خمار بھر دے
تو اپنی آنکھیں کہیں خلا میں گنوا نہ آنا
کہ یہ نہ ہو پھر جو خواب ٹوٹے
دھنک دھنک کا سراب ٹوٹے
کہ جسم و جاں پر عذاب ٹوٹے
اور تم ۔بمشکل لرزتے ہاتھوں سے
کرچی کرچی بدن سنبھالے
کہیں بلندی پہ چڑھ کے رستی ہوئی نگاہوں سے
واپسی کے نشان ڈھونڈوں
اجڑ گیا جو جہان ڈھونڈوں
کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو تو خیال رکھنا
کہیں سے خالی پلٹ کے آنا بہت کٹھن ہے
بہت کٹھن ہے۔
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *