کونسی دھول ہے یہ جس میں اٹا ہے جیون

کونسی دھول ہے یہ جس میں اٹا ہے جیون
کتنی ویرانی ہے گلیوں میں مری۔۔۔ کتنی بیابانی ہے
شہر محدود ہے خاموشی تک
لوگ محصور ہیں تنہائی میں
تیز رفتار ہواؤں میں گھرے ابر کی مانند ہے دل
آنکھ ہے دھوپ میں سلگے ہوئے پنچھی کی طرح
سوچ دیواروں سے لٹکی ہوئی بیلوں کی طرح
آن گرتی ہے کبھی اور کبھی لہراتی ہے
کس نے دیکھی ہے اداسی کی نظر میں توبہ
کس نے احساس گنہ دیکھا ہے
رحم کھو بیٹھا ہے خود اپنی افادیت و دلداری غم
سٹپٹائے ہوئے لوگوں میں بٹا ہے جیون
کتنی ویرانی ہے گلیوں میں مری۔۔۔ کتنی بیابانی ہے
روز ہم دیکھتے ہیں کتنا گھٹا ہے جیون
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *