کوئی دیوار نہ در ناچتا ہے

کوئی دیوار نہ در ناچتا ہے
اس کی آنکھوں کا اثر ناچتا ہے
پی پلا کر جو کبھی مستانے
گھر میں آتے ہیں تو گھر جاچتا ہے
میرے سینے میں ترا غم ایسے
جیسے دریا میں بھنور ناچتا ہے
زندگی تال ہے دکھ کی جس پر
راہ گاتی ہے سفر ناچتا ہے
دیتی پھرتی ہیں بلائیں سرتال
شہر میں خوف و خطر ناچتا ہے
بند ہو جاتا ہے پانی جب بھی
ہر طرف دشت کا ڈر ناچتا ہے
پاؤں زخمی ہوں تو پھر آنکھوں میں
دور تک راہگزر ناچتا ہے
اک جنوں اس پہ فنا کا سودا
دل ٹھہرتا ہے تو سر ناچتا ہے
بالا خانہ ہے یہ دنیا جس میں
کتنی صدیوں سے بشر ناچتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *