کوئی دم بولوں گا دن ہے شب نہیں

کوئی دم بولوں گا دن ہے شب نہیں
ہاتھ پتھر ہو چکے ہیں لب نہیں
مستقل جکڑے ہوئے ہیں جسم و جاں
اس طرح کا وقت ہم پر کب نہیں
بادشہ بھی جھوٹ ہے تو جھوٹ ہے
آدمی تو آدمی کا رب نہیں
دنیا داروں کی اگر سُنیے تو پھر
ہم کو اب تک زندگی کا ڈھب نہیں
ہم نے پوچھا، ہم ہی کیوں ہیں زیرِ دام
مختصر بولے کہ، ہاں، پر سب نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *