کوئی ہے جو میری مدد کو آئے

کوئی ہے جو میری مدد کو آئے
ذرا کچھ آسرا دینا
دلِ بے کل
دیارِ دوستاں میں دشمنی کا خوف ہے
اور خوف بھی بے جا نہیں ہے
ہم کہ جس کو انتہائی پیاس کے عالم میں دریا جان بیٹھے تھے
اب اُس میں آن اترے ہیں تو سمجھے ہیں کہ وہ تو ریت ہے دریا نہیں ہے
اور ہواؤں کے موافق بھی سفر اچھا نہیں ہوتا
نہ بے خبری بھلی ہے اور نہ محتاجی کسی کی
اور ہوا تو اجنبی ہے
کون جانے کونسا جھونکا کسی بے رحم دشمن سا نہیں ہے
ہمسفر ہمراز مت کرنا
ہمارے ساتھ وہ سایہ نہیں ہے
جو کبھی سورج کے ہوتے تھا
اندھیروں میں فقط پرچھائیاں ہمراہ ہوتی ہیں
تجھے یہ بھی پتہ ہو گا کہ پرچھائیں کبھی سچی نہیں ہوتی
دل بے کل
دیارِ دوستاں میں دشمنی کا خوف ہو
تو دشمنوں میں کیا نہیں ممکن
اگرچہ تو بھی کوئی خاص اپنا تو نہیں
پھر بھی
ذرا کچھ آسرا دینا
کہ ہم بھی کیا کریں اس درد خانے میں کہیں سے کوئی دروازہ نہیں ہے
اور کسی کے ساتھ کیا ہوگا
کسی کو کوئی اندازہ نہیں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *