گھر کبھی پہلے نہیں توٹا تو اب ٹوٹے گا

گھر کبھی پہلے نہیں توٹا تو اب ٹوٹے گا
دل اسی زور کی دھڑکن کے سبب ٹوٹے گا
اک نہ اک دن مری بربادی تجھے گھیرے گی
اک نہ اک دن ترے دل پر بھی غضب ٹوٹے گا
ہم فقیروں کا بھی آئے گا زمانہ اور پھر
جادوئے مال و محل، نام و نسب ٹوٹے گا
اونچی اونچی یہ فصیلیں یہ سلاسل، یہ سکوت
مجھ کو لگتا ہے کہ اک روز یہ سب ٹوٹے گا
وقت کے جبر کے بارے میں سبھی پوچھتے ہیں
جانے کب ٹوٹے گا، کب ٹوٹے گا، کب ٹوٹے گا
آپ ہی آپ نہیں ٹوٹنے والا کچھ بھی
ہم اسے زور سے توڑیں گے تو تب ٹوٹے گا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *