لا مکانوں کی ضرورت کیا ہے

لا مکانوں کی ضرورت کیا ہے
آسمانوں کی ضرورت کیا ہے
جب ہمیں چھاؤں نہیں ملنی تو
سائبانوں کی ضرورت کیا ہے
گر کسی رحم و کرم پر ہیں تو
بادبانوں کی ضرورت کیا ہے
لاش محفوظ نہیں رہ سکتی
سرد خانوں کی ضرورت کیا ہے
یہ تو رہ جائیں گے ایسے ہی پڑے
ان خزانوں کی ضرورت کیا ہے
ایک دن تم ہی کہو گے مجھ کو
بے زبانوں کی ضرورت کیا ہے
وہ مری قبر پہ آ کہتا ہے
آستانوں کی ضرورت کیا ہے
جن کو تم چھوڑ گئے ہو خالی
ان جہانوں کی ضرورت کیا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *