ماتم

ماتم
کون اس شہر سے اس شہر تلک ساتھ چلے
کون قبروں میں بلکتی ہوئی ویرانی سنے
یہ بہت ہے کہ مری موت پہ روئے ہیں مرے چاہنے والے کتنے
ورنہ میں موت زدہ آدمی کیا کر لیتا
شکل افسردہ بنائی ہے جو کوشش سے کسی نے تو مہربانی ہے
قبر کھودی ہے کشادہ تو یہ احسان ہے مجھ میت پر
آب چھڑکا ہے، دعا مانگی ہے
اور اگربتیاں سلگائیں ہیں گل پھینکے ہیں
اور پھونکا ہے بہت پڑھ کے کلام
کاش اک بار کوئی مر کے کبھی جی اٹھے
ایک اک ذرے پہ سو بوسے دے
ایک اک ہاتھ پہ بیعت کر لے
آج جن کندھوں پہ اس شہر سے اس شہر تلک آیا ہوں
موت کی ساری جمع پونجی مری ان پہ نثار
موت کی دنیا الگ ہوتی ہے
موت کا شہر الگ ہوتا ہے
موت کا گھر بھی الگ ہوتا ہے
ساتھ مر کر بھی کوئی ساتھ نہیں رہ سکتا
بات اگر ہجر کی ہو
بات اگر ہجر کے درد کی ہو
بات کے ساتھ کہاں رات چلے
کون اس شہر سے اس شہر تلک ساتھ چلے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *