مستقل خود فریبیوں میں

مستقل خود فریبیوں میں
تمہیں یاد ہے
میں تمہیں آدھی باتیں کہتا
اور آدھی کہنے سے پہلے
تم مجھے روک دیتیں
اور جھنجھلا جاتیں
پھر تم لڑ پڑتیں
اور میں خاموش ہو جاتا
اور چلا جاتا
کبھی دنوں کے لئے
کبھی مہینوں کے لئے
اور کبھی سالوں کے لئے
میں چلا جاتا اور تم پھر محصور ہو جاتیں
لمحاتی خوشیوں میں
اور مستقل خود فریبیوں میں
تمہیں یاد ہے
میں اور تم
یر بار کسی تیسرے باعث لڑے
اور ہر بار یہ تیسرا کوئی اور ہوتا
اپنے گوار ا ہونے کی بات ہے
تمہیں یہ سب ایسے ہی گوارا تھا
مجھے نہیں تھا
میں تمہارے پاس ہوتا
بارشیں برس برس کے جھومتی رہتیں
اور جھوم جھوم کے برستی رہتیں
تم سے دور ہوتا
تو آسمان رو دیتا
آسمان روتا اور بارش ہوتی
پھر میں روتا
بارش اور تیز ہو جاتی
پھر میں تھک جاتا
بارش رک جاتی
اور ہوا چلنے لگتی
تیز اور نم آلود ہوا
دل سے ہو کر گزرتی
اور خون آلود ہو جاتی
زخم ایک ایک کر کے کھلنے اور جلنے لگتے
پور پور درد سے بھر جاتی
رُواں رُواں لرزتا
اور لمحہ لمحہ عذاب ہو جاتا
اور عذاب پھیل جاتا
دور دور تک
وسیع و عریض اور محیط
روح تڑپتی
اور اِدھر اُدھر بھاگتی
گِرتی، پڑتی، بھاگتی اور ٹکراتی
تمہارے ہجر کے آہنی در و دیوار سے
اور تمہاری یادوں کے سنگی ستونوں سے
اور ان کی پتھریلی چٹانوں سے
روح انا سے ٹکراتی
اور چٹانیں اور بلند ہو جاتیں
چٹانیں بلند ہوتیں، بلند ہوتیں
اور پہاڑیاں بن جاتیں
پھر لمحہ لمحہ پھیلتے عذاب کے کنارے کنارے
پہاڑیاں پھیلنے لگتیں
کیا تمہیں یاد نہیں؟
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *