مستقل دل سے ہے ڈر وابستہ

مستقل دل سے ہے ڈر وابستہ
جس گھڑی سے ہوا گھر وابستہ
ہم فقیروں کا حوالہ دکھ ہے
آپ کی ذات سے زر وابستہ
اس کی لہروں سے میری لہروں کا
جانے کیسا ہے اثر وابستہ
ٹیس سے ٹیس کا اک رابطہ ہے
زخم دل سے ہے جگر وابستہ
ہو گئے اس سے دل و جاں اپنے
جیسے دیوار سے در وابستہ
منزلیں اور کسی کی ہونگی
اس سے میرا ہے سفر وابستہ
زندگی یوں بھی جدا کرتی ہے
ہم ادھر ہیں وہ ادھر وابستہ
سامنے ہو یا نہ ہو رہتی ہے
اس کے چہرے سے نظر وابستہ
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *