مقتول کبھی دن کا کبھی رات کا مارا

مقتول کبھی دن کا کبھی رات کا مارا
ہر وقت ہے دل صورتِ حالات کا مارا
پھرتا ہوں کسی بھٹکے مسافر کی طرح میں
اس راہِ محبت میں ملاقات کا مارا
میرے لئے گولی کی ضرورت ہی نہیں ہے
شاعر ہوں میں مر جاؤں گا اک بات کا مارا
اب جو بھی ہو اس شہر میں حیرت نہیں ہوتی
یہ شہر مکمل ہے مکافات کا مارا
اک شہر کی بوندوں کو ترستے ہوئے تڑپا
اک شہر زبوں حال ہے برسات کا مارا
ہر شخص مجھے اپنی طرح لگتا ہے ویراں
کچھ کہہ بھی نہیں سکتا میں صدمات کا مارا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *