منزل سے دور

منزل سے دور
تھک کے گر پڑنے کے بعد
مجھے معلوم ہی نہیں تھا
جہاں پہنچنے کے لئے چلا ہوں
وہ پہلے ہی پہنچ چکے ہیں
کالے کلوٹے ننگ دھڑنگ خدشے
وحشی، درندہ صفت بلائیں
لمبے لمبے ناخن بڑھائے، دانت کٹکٹاتے ہوئے
جب جانا تو گھر چکا تھا
سوچوں کے بند کوچے
سانسوں کے ناہموار راستے
اور بھول بھلیاں
گھبرائے دے رہی ہیں
ناواقفیت کے جال میں الجھی ہوئی سمجھ کا کیا کروں
کسی نے پہاڑ ترچھا کر کے
ایک تنکے کے سہارے
میرے سر کے عین اوپر کھڑا کر دیا ہے
تیز ہوا اور ماحول کا خوف
زندہ در گور کئے دے رہے ہیں
پہلے نہ سہی
لیکن آخری بار تو آؤ گے ہی نا
آنکھیں بند کرنے کے لئے
کندھا دینے کے لئے
یا
مٹھی بھر خاک ڈالنے کے لئے
میری پلکوں پر غلاف
اور مٹی پر جمی ہوئی
ترسی ہوئی جدائی
تمہارا انتظار کرے گی
مجھے اب آ کے لگا ہے
میں محبت کے لئے پیدا ہوا تھا
اور محبت کے لئے ہی مروں گا
لیکن محبت نے مجھ سے شادی نہیں کی
دوستی کر کے چھوڑ گئی ہے
اور سارا کچھ دے گئی ہے
جو اچانک چھوڑ کے جانے والے دے جاتے ہیں
اب تو پناہیں ڈھونڈتے ہوئے بھی جھجک ہوتی ہے
میں اچھا ہوں تو دوست مجھے بخش کیوں نہیں دیتے
بُرا ہوں تو دور کیوں نہیں چلے جاتے
جن لوگوں کو
میری پیشانی پر پڑی ہوئی چٹان نظر نہیں آتی
انہیں میرے دل پہ پڑا ہوا پتھر کیسے نظر آئے گا
اگر دروازے کے باہر کوئی ہجوم کھڑا ہے
اسے کہہ دو
میں ابھی فارغ نہیں ہوں
ابھی میں دکھ میں ہوں
مصروف اور مبتلا
انہیں کہہ دو
رات کے بعد آئیں
میں اپنے بازو اور آواز ان سب میں برابر تقسیم کردوں گا
تا کہ ان کی بھوک مٹ جائے
کم ز کم کچھ عرصے تک کے لئے
انہیں یہ نہ بتانا کہ رات تو بیتے گی ہی نہیں
رات کو بیتنا ہوتا تو سفر ختم نہ ہو جاتا
معلوم ہی نہیں تھا جہاں پہنچنے کے لئے چلا ہوں
وہ پہلے پہنچ چکے ہیں
اور میرا منہ چڑا رہے ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *