منزل کا یہاں کوئی اشارہ ہی نہیں ہے

منزل کا یہاں کوئی اشارہ ہی نہیں ہے
تا حد نظر کوئی ستارہ ہی نہیں ہے
لوگوں کو مرا درد گوارا ہی نہیں ہے
اس شہر میں اب میرا گزارا ہی نہیں ہے
دیکھو بھلا کس غیض و غضب میں ہے یہ دریا
کشتی کو ابھی ہم نے اتارا ہی نہیں ہے
ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی کان نہ دھرتا
تم نے کبھی چاہت سے پکارا ہی نہیں ہے
دل نے تجھے عادت ہی بنا ڈالا ہے جاناں
تیرے بنا اب اپنا گزارا ہی نہیں ہے
میرے تو غموں کی کوئی حد ہی نہیں فرحت
میرے تو سمندر کا کنارا ہی نہیں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *