موت کا وقت گزر جائے گا

موت کا وقت گزر جائے گا
یہ بھی سیلاب اتر جائے گا
آ گیا ہے جو کسی سکھ کا خیال
مجھ کو چھو لے گا تو مر جائے گا
کیا خبر تھی مرا خاموش مکاں
اپنی آواز سے ڈر جائے گا
آگیا ہے جو دکھوں کا موسم
کچھ نہ کچھ تو کہیں دھر جائے گا
جھوٹ بولے گا تو کیا ہے اس میں
کوئی وعدہ بھی تو کر جائے گا
اس کے بارے میں بہت سوچتا ہوں
مجھ سے بچھڑا تو کدھر جائے گا
چل نکلنے سے بہت ڈرتا ہوں
کون پھر لوٹ کے گھر جائے گا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *