میں دانستہ نہیں بچھڑا

میں دانستہ نہیں بچھڑا
ستم دیکھو
ابھی پوری طرح سنبھلے نہیں تھے اور
ابھی سے جسم وجاں کا قرض
ناکردہ گناہوں کی سزا بن کے
بدن اور خواب کے در پے ہوا ہے
تم یقیں جانو
میں دانستہ نہیں بچھڑا
میں اپنی زندگی کے جرم کی پاداش میں
وحشت زدہ دن رات لے کر
اپنے ہی ہاتھوں میں
خود اپنے ہی خالی ہاتھ لے کر
جان
خود کو بیچنے نکلا ہوا ہوں اور
نجانے کب،کہاں اور کس قدر
قیمت لگے
قیمت لگے بھی یا۔۔۔۔
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *