میں سلگ سلگ کے ہوا کے ہاتھ میں راکھ تھا

میں سلگ سلگ کے ہوا کے ہاتھ میں راکھ تھا
تری مانگ بھول کے میری راہ میں آگئی
صفِ رہروان طلب میں ہم بھی تھے مضطرب
یہ الگ کہ تیری نگاہ ہم پہ نہیں پڑی
میں جہاں جہاں سے ہوں منتشر کسی ذات کا
ہیں وہیں وہیں مرے انکشاف کے راستے
میں ترے لحاظ سے مطمئن ہوں مگر ذرا
کبھی غور کر مری بے قراری پہ غور کر
ہمیں اس قدر تو وہ یاد آیا نہ تھا کبھی
شب ہجر اتنی اداس پہلے کبھی نہ تھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *