میں کہ مٹی تھا بے نشان پڑی

میں کہ مٹی تھا بے نشان پڑی
تو نے پھونکا تو مجھ میں جان پڑی
بچ کہ نکلو گے کیا شب غم سے
راستے میں ہے بدگمان پڑی
شام بھی ہو گئی کٹھن کچھ اور
بے قراری بھی اور آن پڑی
تیر مڑ کے اتر گیا دل میں
ہاتھ میں ہی رہی کمان پڑی
اور سمجھنا نہیں کبھی کچھ بھی
ایک صورت ہے میرے دھیان پڑی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *