کسی کو بھی مجرم ٹھہرایا جا سکتا ہے

کسی کو بھی مجرم ٹھہرایا جا سکتا ہے
گر ماضی کا منصف لایا جا سکتا ہے
اس کے احسانات کی بات چلے گی تو
دل کا اک اک زخم دکھایا جا سکتا ہے
چین کی بھی اپنی بے چینی ہوتی ہے
کسی بھی حالت سے اکتایا جا سکتا ہے
ورنہ ممکن ہے آنسو تنہا رہ جائیں
تنہائی کو ساتھ ملایا جا سکتا ہے
موڑ موڑ پر بھول بھلیاں پھیلی ہیں
کیسے دل تک دل پہنچایا جا سکتا ہے
ایک سمندر لہریں مارتے جذبوں کا
کیا آنکھوں میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
غم کو بھی دلداری کرنی آتی ہے
غم کو بھی دلدار بنایا جا سکتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *