وصال

وصال
سرابی چلی گئی تھی
شہروں سے بھی، اور لوگوں سے بھی
نہ گھروں میں تھی، نہ گلیوں میں
نہ راہوں میں تھی، نہ شاہراہوں میں
بے قراری بڑھنے لگی
اضطراب سوا ہو گیا
بے چینی وسیع ہو گئی
گھٹن پاس آگئی،
گھٹن پاس آگئی
اور میں بچھڑ گیا
بچھڑتا چلا گیا
گھر بار،
شہروں،
لوگوں،
ہواؤں،
درختوں،
زمینوں،
آسمانوں،
اور جہانوں
سب سے
میں بچھڑتا چلا گیا
اور سرابی دور ہوتی گئی
اور زیادہ دور
بہت دور جا بسی
شاید کسی جنگل
کسی صحرا
کسی ویرانے میں
میں چل پڑا
گلیوں گلیوں،
بستی بستی،
شہر شہر،
جنگل جنگل،
صحرا صحرا،
چلتا رہا
چلتا رہا اور پکارتا رہا
پکارتا رہا اور روتا رہا
بھاگتا رہا اور ڈھونڈتا رہا
ڈھونڈتا رہا اور پکارتا رہا
میں نے اسے پکارا
بڑے بڑے صحراؤں میں
اور دور دراز کی وادیوں میں
اسے پکارا اور تلاش کیا
کبھی درختوں میں
کبھی دریاؤں میں
کبھی سمندروں میں
کبھی گھاس میں
کبھی تنکوں میں
اور کبھی پہاڑوں میں
کبھی لفظوں میں
اور کبھی کتابوں میں
میں ڈھونڈتا رہا، ڈھونڈتا رہا
کہیں رکا نہیں
میں گِر گِر پڑا ، لیکن رکا نہیں
میں گھسٹتا رہا، لیکن تھکا نہیں
میں بکھر بکھر گیا، لیکن مرا نہیں
میں بھٹک بھٹک گیا، لیکن لوٹا نہیں
میں رکا نہیں،
تھکا نہیں
ہارا نہیں
اور وہ مل گئی
میں نے اسے پکارا
اس نے جواب دیا
میں نے کہا، سرابی۔۔۔۔
اس نے بھی کہا سرابی۔۔۔۔۔۔
وہ اسی کی آواز تھی، بالکل اسی کی
اور ہر طرف گونج رہی تھی
میں نے پوچھا کہاں ہو
اس نے کہا ہر جگہ
میں رو دیا
اور بولا
میں نے تمہیں کہاں نہیں ڈھونڈا
معصوموں کے خون سے ماؤں کی
کرلاہٹوں تک
غریب کے حوصلے سے مظلوموں کے آنسوؤں تک
شیطانوں کے قہر سے ایوانوں کی زنجیروں تک
بھوک کی بھوک سے بھرے ہوئے کے شکر تک
میں نے تمہیں کہاں نہیں ڈھونڈا
اور اب تم کہتی ہو میں ہر جگہ ہوں
ہاں۔۔۔۔۔
میں ہر جگہ ہوں۔۔۔۔۔ وہ بولی
لیکن کوئی ڈھونڈے تو سہی
کوئی تلاش تو کرے
تم نے دیکھا؟
اتنی بھیڑ میں کوئی تلاش کرنے والا نہیں
تلاش کیا کرے
کوئی جانتا ہی نہیں
جانے کیا
کوئی جاننا ہی نہیں چاہتا
چاہے کیوں
اپنے آپ سے ہی فرصت نہیں
اپنا آپ
ہونہہ
آدھا اور ادھورا اپنا آپ
تم آدھے نہیں رہے
سنو! لوٹ جاؤ
انہیں ادھورے لوگوں میں لوٹ جاؤ
انہیں تمہاری ضرورت ہے
سارے ہی ادھورے نہیں ہیں
تم جیسے کچھ اور بھی ہیں ان میں
تم بھی لوٹ جاؤ
ان کے درمیان رہو
میں سنتا رہا
اور چلتا رہا
واپس اسی شہرِ آزار کی طرف
انہیں لوگوں کی طرف
اور وہ بولتی رہی
وہ بولتی رہی
میں سنتا رہا
سنتا رہا اور لکھتا رہا
لکھتا رہا، لکھتا رہا، لکھتا رہا
اور سنتا رہا
میں سنتا رہا
اور وہ بولتی رہی
وہ ہر جگہ تھی
نہیں تھی، تو سکون میں نہیں تھی
کسی ٹھہراؤ اور کسی پڑاؤ میں نہیں تھی
لیکن وہ تھی
سفر، اور سفر کے نصیب میں تھی
بے چینی، اور بے چینی کی خواہش میں تھی
بے قراری، اور بے قراری کی آرزو میں تھی
اضطراب، اور اضطراب کی چاہ میں تھی
سینے کی گھٹن
اور روح کی حبس میں تھی
اور حبس کے خواب میں تھی
غم اور غم کے حُسن میں تھی
دکھ اور دکھ کے صبر میں تھی
اور ایسی تمام گہری
اور وسیع
اور بلند جگہوں پر تھی
سرابی
میری اپنی سرابی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *