یہ کہانیاں بھی عجیب ہیں

یہ کہانیاں بھی عجیب ہیں
ابھی خوشبوؤں میں ملا تھا پھول کی اوٹ میں
ابھی لہلاتا ہوا کھڑا تھا بہار میں
ابھی بچ رہا تھا ستار میں
ابھی بادلوں کے جلو میں تھا
ابھی ہر چراغ کی لو میں تھا
ابھی شوخ رنگوں میں رنگ تھا
مرے سنگ تھا
ابھی شام رنگ کی خواب گاہ
مجھ کو دیکھ کے دنگ تھا
ابھی ہنس رہا تھا سنبھل سنبھل کے کہ سن نہ لے کوئی راگنی
ابھی پاؤں اپنے دکھا رہا تھا جلا رہا تھا بڑے غرور سے ہجر کے کسی مور کو
ابھی چھُو کے دیکھا، تو، تھا۔۔۔۔
پکارا تو کھا گیا
ابھی جاگتا تھا خیال میں، ابھی سو گیا
وہ کسی ہوا کی مثال تھا
جسے تھام لینا محال تھا
اسی راستے پہ پلٹ کے آنا کٹھن ہوا
جہاں ہمرکاب وصال تھا
کوئی دھوپ رکھی ہے اوس میں
کوئی شب ہے پاس پڑوس میں
بڑا حبس ہے
یہ چراغ جو کبھی جل گئے کبھی بجھ گئے
یہ گلاب جو کبھی نا کھلے کبھی کھل گئے
یہ سراغ جو کبھی کھو گئے کبھی مل گئے
یہ عبارتیں، یہ علامتیں، یہ نشانیاں بھی عجیب ہیں
یہ کہانیاں بھی عجیب ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *