یہ کوئی تو ہے کہ جو عمر سے

یہ کوئی تو ہے کہ جو عمر سے
ہمیں رکھ رہا ہے جدا جدا
جو درخت ہیں یہ تو یار ہین
یہ جو دھوپ ہے یہ تو پیار ہے
وہی انتظا ر ملا مجھے
جسے چھوڑ آیا تھا راہ میں
ابھی دھند ہے مرے ہر طرف
ابھی زندگی کے نشے میں ہوں
تری زندگی بھی فریب ہے
مری زندگی بھی فریب ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرا انتظار قدیم ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *