یہ میں کون ہوں

یہ میں کون ہوں
دلِ شب نما کے حصار میں
کئی دکھ کھڑے ہیں قطار میں
ترے پیار میں
گلے مل کے مجھ کو رلائیں گے
کبھی دور جا کے بلائیں گے
کبھی پاس آ کے
ڈرائیں گے
کبھی چھپ کے
پیچھے سے آ کے
آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے
ستائیں گے
مرے کان میں
کسی سر سراتی زباں میں
لہجہ بدل کے پوچھیں گے
کون ہوں بھلا بوجھ تو یہ میں کون ہوں
کسی تیرگی کا پہاڑ اترا ہے آنکھ پر
مری سانس پر بھی کسی اندھیری چٹان کا بڑا بوجھ ہے
یہ جو بوجھ ہے
مری جاں پہ پیر دبا کے مجھ سے یہ پوچھتا ہے میں کون ہوں
بھلا بوجھ تو یہ میں کون ہوں
بڑا نوکدار سوال ہے
ترے دکھ سے میرے ملال تک، تری دھڑکنوں سے مرے وجود کی تال تک
کہیں دور چُبھ سا گیا ہے، دور خیال تک
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *