یہاں رائیگانی ہزار ہے مرے روبرو

یہاں رائیگانی ہزار ہے مرے روبرو
مجھے اپنے دل پہ غلاف رکھنے ہیں مختلف
جہاں دکھ کی صورتحال میں بھی ہو بزدلی
وہاں سانس لینا بھی اور نہ لینا بھی جرم ہے
کبھی اپنے اپنے ضمیر خاص سے پوچھئیے
وہ جو کونوں کھدروں میں وقت تھا اسے کیا ہوا
ترے آسمانوں کی خیر ہو میرے بے زمیں
مرے سائبانوں کا کھیل کھیل میں کیا کیا
کسی بے خیالی میں ہنسنے والے مسافرو
تمہیں اپنی اپنی اداسیوں کا تو علم تھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *