دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاوں

دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاوں
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاوں
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاوں
دی سادگی سے جان پڑوں کوہکن کے پاوں
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گیے پیر زن کے پاوں
بھاگے تھے ہم بہت۔ سو، اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راه زن کے پاوں
مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور
تن سے سواف گار ہیں اس خستہ تن کے پاوں
لله رے ذوقِ دشت نوردی کہ بعدِ مرگ
ہلتے ہیں خود بہ خود مرے، اندر کفن کے، پاوں
ہے جوشِ گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف
اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغِ چمن کے پاوں
شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دکھتے ہیں آج اس بتِ نازک بدن کے پاوں
غالبؔ مرے کلام میں کیوں کر مزه نہ ہو
پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پاوں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *