شفق بدعوۂ عاشق گواہِ رنگیں ہے

شفق بدعوۂ عاشق گواہِ رنگیں ہے
شفق بدعوۂ عاشق گواہِ رنگیں ہے
کہ ماہ دزدِ حنائے کفِ نگاریں ہے
کرے ہے بادہ، ترے لب سے، کسبِ رنگِ فروغ
خطِ پیالہ، سراسر نگاہِ گلچیں ہے
کبھی تو اِس سرِ [1] شوریدہ کی بھی داد ملے!
کہ ایک عُمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے
بجا ہے، گر نہ سُنے، نالہ ہائے بُلبلِ زار
کہ گوشِ گُل، نمِ شبنم سے پنبہ آگیں ہے
عیاں ہے پائے حنائی برنگِ پرتوِ خورشید
رِکاب روزنِ دیوارِ خانۂ زیں ہے
جبینِ صبح، امیدِ فسانہ گویاں پر
درازیِ رگِ خوابِ بتاں خطِ چیں ہے
ہوا نشانِ سوادِ دیارِ حسن عیاں
کہ خط غبارِ زمیں خیزِ زلفِ مشکیں ہے
اسدؔ ہے نزع میں، چل بیوفا! برائے خُدا!
مقامِ ترکِ حجاب و وداعِ تمکیں ہے
نہ پوچھ کچھ سر و سامان و کاروبارِ اسدؔ [2]
جنوں معاملہ، بے دل، فقیرِ مسکیں ہے
1. نسخۂ حامد علی خان میں “سرِ شوریدہ” کی جگہ “دلِ شوریدہ” درج ہے۔ ملاحظہ ہو ان کا حاشیہ (جویریہ مسعود) نسخۂ عرشی میں غالباً بالیں کی رعایت سے “سرِ شوریدہ” درج کیا گیا ہے مگر دوسرے قدیم و جدید نسخوں میں جو نظر سے گزرے، “دلِ شوریدہ” ہی چھپا ہے۔ طباطبائی نے متن میں “دل شوریدہ” درج کرکے احتمال ظاہر کیا ہے کہ غالب نے “سرِ شوریدہ” ہی لکھا ہو گا۔ پھر لکھتے ہیں کہ معنیِ شعر دونوں طرح ظاہر ہیں۔ (حامد علی خاں)
2. نسخۂ حمیدیہ میں مقطع نہیں ہے (جویریہ مسعود)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *