ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیده ہوں

ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیده ہوں
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیده ہوں
میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیده ہوں
ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو
گہ نالۂ کشیده، گہ اشکِ چکیده ہوں
نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ
میں معرضِ مثال میں دستِ بریده ہوں
ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہو مجھ کو لاگ
نے دانۂ فتاده ہوں ،نے دامِ چیده ہوں
جو چاہئے، نہیں وه مری قدر و منزلت
میں یوسفِ بہ قیمتِ اوّل خریده ہوں
ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ
ہوں میں کلامِ نُغز، ولے ناشنیده ہوں
اہلِ وَرَع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے زمرے میں مَیں برگزیده ہوں
ہوں گرمئ نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریده ہوں
جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن
از بسکہ تلخئِ غمِ ہجراں چشیده ہوں
ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں
خارِ الم سے پشت بہ دنداں گزیده ہوں
پانی سے سگ گزیده ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیده ہوں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *