میر تقی میر
گرم مجھ سوختہ کے پاس سے جانا کیا تھا
گرم مجھ سوختہ کے پاس سے جانا کیا تھا آگ لینے مگر آئے تھے یہ آنا کیا تھا برسوں یک بوسۂ لب مانگتے جاتے ہیں…
گر بادیے میں تجھ کو صبا لے کے جائے شوق
گر بادیے میں تجھ کو صبا لے کے جائے شوق مجنوں کو میری اور سے کہیو دعائے شوق وصل و جدائی سے ہے مبرا وہ…
کیسی سعی و کشش کوشش سے کعبے گئے بت خانے سے
کیسی سعی و کشش کوشش سے کعبے گئے بت خانے سے اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے دامن پر…
کیا میرؔ کا مذکور کریں سب ہے جہل
کیا میرؔ کا مذکور کریں سب ہے جہل پایا ہم نے اسے نہایت ہی سہل ایسوں سے نہیں مزاج اپنا مانوس وحشی بے طور بد…
کیا کیا جھمک گئے ہیں رخسار یار دونوں
کیا کیا جھمک گئے ہیں رخسار یار دونوں رہ رہ گئے مہ و خور آئینہ وار دونوں تصویر قیس و لیلیٰ ٹک ہاتھ لے کے…
کیا کہیے اپنے عہد میں جتنے امیر تھے
کیا کہیے اپنے عہد میں جتنے امیر تھے ٹکڑے پہ جان دیتے تھے سارے فقیر تھے دل میں گرہ ہوس رہی پرواز باغ کی موسم…
کیا کروں میں صبر کم کو اور رنج بیش کو
کیا کروں میں صبر کم کو اور رنج بیش کو زہر دیویں کاشکے احباب اس درویش کو کھول آنکھیں صبح سے آگے کہ شیر اللہ…
کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنا میر تقی میر
کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنا یا تو بیگانے ہی رہیے ہو جیے یا آشنا پائمال صد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیب…
کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں
کیا تم سے کہوں میرؔ کہاں تک روؤں روؤں تو زمیں سے آسماں تک روؤں جوں ابر جہاں جہاں بھرا ہوں غم سے شائستہ ہوں…
کوئی اپنا نہ یار ہے نہ حبیب
کوئی اپنا نہ یار ہے نہ حبیب اس ستمگر کے ہم ہیں شہر غریب سر رگڑتے اس آستاں پر میرؔ یاری کرتے اگر ہمارے نصیب
کہیں آگ آہ سوزندہ نہ چھاتی میں لگا دیوے
کہیں آگ آہ سوزندہ نہ چھاتی میں لگا دیوے خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے بہت روئے ہمارے دیدۂ تر اب نہیں…
کہتا ہے یہ اپنی آنکھوں دیکھیں گے فقیر
کہتا ہے یہ اپنی آنکھوں دیکھیں گے فقیر بینش نہیں رکھتے کیا جواں ہوں کیا پیر اندھے ہیں جہاں کے لوگ سارے اے میرؔ سوجھے…
کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی
کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی آخر کو گرو رکھا سجادۂ محرابی جاگا ہے کہیں وہ بھی شب مرتکب مے ہو…
خط منھ پہ آئے جاناں خوبی پہ جان دے گا
خط منھ پہ آئے جاناں خوبی پہ جان دے گا ناچار عاشقوں کو رخصت کے پان دے گا سارے رئیس اعضا ہیں معرض تلف میں…
کس فتنہ قد کی ایسی دھوم آنے کی پڑی ہے
کس فتنہ قد کی ایسی دھوم آنے کی پڑی ہے ہر شاخ گل چمن میں بھیچک ہوئی کھڑی ہے واشد ہوئی نہ بلبل اپنی بہار…
کرتے ہیں گفتگو سحر اٹھ کر صبا سے ہم
کرتے ہیں گفتگو سحر اٹھ کر صبا سے ہم لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم ہوتا نہ دل کا تا یہ…
کچھ میرؔ تکلف تو نہیں اپنے تئیں
کچھ میرؔ تکلف تو نہیں اپنے تئیں ان روزوں نہیں پاتے کہیں اپنے تئیں اب جی تو بہت بتنگ آیا اے کاش جاویں ہم چھوڑ…
کبھو ملے ہے سو وہ یوں کہ پھر ملا نہ کریں
کبھو ملے ہے سو وہ یوں کہ پھر ملا نہ کریں کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں ہوئی یہ چاہ میں مشکل…
کب تک رہیں گے پہلو لگائے زمیں سے ہم
کب تک رہیں گے پہلو لگائے زمیں سے ہم یہ درد اب کہیں گے کسو شانہ بیں سے ہم تلواریں کتنی کھائی ہیں سجدے میں…
قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے
قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے گلوں نے جن کی خاطر خرقے ڈالے وہ کالا چور ہے خال رخ یار کہ سو آنکھوں میں دل…
فسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی
فسوس ہے عمر ہم نے یوں ہی کھوئی دل جس کو دیا ان نے نہ کی دلجوئی جھنجھلا کے گلا چھری سے کاٹا آخر جھل…
غیر سے اب یار ہوا چاہیے
غیر سے اب یار ہوا چاہیے ملتجی ناچار ہوا چاہیے جس کے تئیں ڈھونڈوں ہوں وہ سب میں ہے کس کا طلبگار ہوا چاہیے تاکہ…
غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر
غصے سے اٹھ چلے ہو تو دامن کو جھاڑ کر جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد…
عشق ہمارے در پئے جاں ہے آئے گھر سے نکل کر ہم
عشق ہمارے در پئے جاں ہے آئے گھر سے نکل کر ہم سر پر دیکھا یہی فلک ہے جاویں کیدھر چل کر ہم بل کھائے…
عشق کیا ہے جب سے ہم نے دل کو کوئی ملتا ہے
عشق کیا ہے جب سے ہم نے دل کو کوئی ملتا ہے اشک کی سرخی زردی چہرہ کیا کیا رنگ بدلتا ہے روز وداع لگا…
عشق رسوائی طلب نے مجھ کو سرگرداں کیا
عشق رسوائی طلب نے مجھ کو سرگرداں کیا کیا خرابی سر پہ لایا صومعہ ویراں کیا ہم سے تو جز مرگ کچھ تدبیر بن آتی…
عبرت سے دیکھ جس جا یاں کوئی گھر بنے ہے
عبرت سے دیکھ جس جا یاں کوئی گھر بنے ہے پردے میں چشم ڈھکنے دیوار و در بنے ہے ہیں دل گداز جن کے کچھ…
طوف مشہد کو کل جو جاؤں گا
طوف مشہد کو کل جو جاؤں گا تیغ قاتل کو سر چڑھاؤں گا وصل میں رنگ اڑ گیا میرا کیا جدائی کو منھ دکھاؤں گا…
طاقت نہیں ہے جان میں کڑھنا تعب ہے اور
طاقت نہیں ہے جان میں کڑھنا تعب ہے اور بے لطفیاں کرو ہو یہ تس پر غضب ہے اور ہر چند چپ ہوں لیک مرا…
صبر کر رہ جو وہ عتاب کرے
صبر کر رہ جو وہ عتاب کرے ورنہ کیا جانے کیا خطاب کرے عشق میں دل بہت ہے بے آرام چین دیوے تو کوئی خواب…
شب ہجر میں کم تظلم کیا میر تقی میر
شب ہجر میں کم تظلم کیا کہ ہمسائگاں پر ترحم کیا کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات کلی نے یہ سن کر تبسم…
سینے میں شوق میرؔ کے سب درد ہو گیا
سینے میں شوق میرؔ کے سب درد ہو گیا دل پر رکھا تھا ہاتھ سو منھ زرد ہو گیا نکلا تھا آج صبح بہت گرم…
سوز دروں نے آخر جی ہی کھپا دیا ہے
سوز دروں نے آخر جی ہی کھپا دیا ہے ٹھنڈا دل اب ہے ایسا جیسے بجھا دیا ہے اب نیند کیونکے آوے گرمی نے عاشقی…
سطح جو ہاتھوں میں تھا اس کے رخ گلفام کا
سطح جو ہاتھوں میں تھا اس کے رخ گلفام کا ہاتھ ملنا کام ہے اب عاشق بدنام کا کچھ نہیں عنقا صفت پر شہرۂ آفاق…
ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا
ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا رہے جہان میں تو دیر میں رہا نہ رہا کب اس کا نام لیے غش نہ…
ساتھ ہو اک بے کسی کے عالم ہستی کے بیچ
ساتھ ہو اک بے کسی کے عالم ہستی کے بیچ باز خواہ خوں ہے میرا گو اسی بستی کے بیچ عرش پر ہے ہم نمد…
زانو پہ سر ہے اکثر مت فکر اس قدر کر
زانو پہ سر ہے اکثر مت فکر اس قدر کر دل کوئی لے گیا ہے تو میرؔ ٹک جگر کر خورشید و ماہ دونوں آخر…
رہنے کا پاس نہیں ایک بھی تار آخرکار
رہنے کا پاس نہیں ایک بھی تار آخرکار ہاتھ سے جائے گا سررشتۂ کار آخرکار لوح تربت پہ مری پہلے یہ لکھیو کہ اسے یار…
رنج کی اس کے جو خبر گذرے
رنج کی اس کے جو خبر گذرے رفتہ وارفتہ اس کا مر گذرے ایک پل بھی نہ اس سے آنسو پنچھے روتے مجھ کو پہر…
رفتن رنگین گل رویاں سے کیا ٹھہراؤ ہو
رفتن رنگین گل رویاں سے کیا ٹھہراؤ ہو ساتھ ان کے چل تماشا کر لے جس کو چاؤ ہو قد جو خم پیری سے ہو…
رات گذرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے
رات گذرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے کھول کر آنکھ اڑا دید جہاں کا غافل…
دیکھے گا جو تجھ رو کو سو حیران رہے گا میر تقی میر
دیکھے گا جو تجھ رو کو سو حیران رہے گا وابستہ ترے مو کا پریشان رہے گا وعدہ تو کیا اس سے دم صبح کا…
دیدۂ گریاں ہمارا نہر ہے
دیدۂ گریاں ہمارا نہر ہے دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے آندھی آئی ہو گیا عالم سیاہ شور نالوں کا بلائے دہر ہے دل جو…
دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں
دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں وقت ملنے کا مگر داخل ایام نہیں مثل عنقا مجھے تم دور سے سن لو ورنہ ننگ…
دل لگی کے تئیں جگر ہے شرط
دل لگی کے تئیں جگر ہے شرط بے خبر مت رہو خبر ہے شرط عشق کے دو گواہ لا یعنی زردی رنگ و چشم تر…
دل کی بیماری سے طاقت طاق ہے
دل کی بیماری سے طاقت طاق ہے زندگانی اب تو کرنا شاق ہے دم شماری سی ہے رنج قلب سے اب حساب زندگی بیباق ہے…
دل عجب چرچے کی جاگہ تھی سو ویرانہ ہوا
دل عجب چرچے کی جاگہ تھی سو ویرانہ ہوا جوش غم سے جی جو بولایا سو دیوانہ ہوا بزم عشرت پر جہاں کی گوش وا…
دل خوں ہوا ہمارا ٹکڑے ہوئے جگر کے
دل خوں ہوا ہمارا ٹکڑے ہوئے جگر کے دیکھا نہ تم نے ایدھر صرفے سے اک نظر کے چشمے کہیں ہیں جوشاں جوئیں کہیں ہیں…
دل تاب ٹک بھی لاتا تو کہنے میں کچھ آتا
دل تاب ٹک بھی لاتا تو کہنے میں کچھ آتا اس تشنہ کام نے تو پانی بھی پھر نہ مانگا