بھی اک موڑ آیا ہے

بھی اک موڑ آیا ہے
ابھی اک موڑ آیا ہے
ابھی منزل نہیں آئی
ابھی اپنے دیے سے
اور کتنے ہی دیے مجھ کو جلانے ہیں
ابھی تو اِس سفر میں
اور کتنے موڑ آنے ہیں
ابھی میں تازہ دم ہوں
ابھی سینے میں جلتا وہ دیا
ویسے ہی روشن ہے
ابھی ظلمت کدے میں
اپنے حصے کی شمعیں مجھ کو جلانی ہیں
کہ یوں بھی روشنی تقسیم کرنے کے سفر میں
منزلوں کی قید کیا ہو گی
پرانے ساتھیوں کو چھوڑنے کا
غم تو ہے دل میں!
کہ جن کے ساتھ چلنے سے
سفر نے اپنی ساری مشکلیں خود ہی سمیٹی تھیں
نئے رستوں پہ اُن کی یاد میری ہمسفر ہو گی
پرانے ساتھیوں کو چھوڑنے کا غم تو ہے دل میں
مگر مجھ کو ابھی تو
روشنی تقسیم کرنی ہے
ابھی تو موڑ آیا ہے
ابھی منزل نہیں آئی
٭۔ یہ نظم اپنے والد محترم پروفیسر سعید شیخ کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر لکھی گئی۔
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *