ہم جی رہے ہیں عالمِ صد

ہم جی رہے ہیں عالمِ صد خوفناک میں
رُسوا کیا گیا ہمیں بزمِ تپاک میں
ہائے فریبِ وصل ترے انتظار میں
گزری حیاتِ خضر دما دم فراق میں
تیغِ عدو سے مجھ کو نہیں خوف اب کوئی
لیکن ہے میری اپنی سِپر میری تاک میں
مجھ کو مرے وجود سے کر دے الگ کوئی
دم گھُٹ رہا ہے مرقدِ ہستی کی دھاک میں
منزل نہ ہمسفر نہ کوئی راستہ ہے یاد
اتنے اُلجھ گئے ہیں سیاق و سباق میں
فرطِ شعورِ ذات سے مجھ کو ملا دوام
ملنے لگی وقارؔ مری خاک‘ خاک میں!
*
مجھ سے کچھ خوف نہ کھا میں بھی ہوں اک ذہنی غلام
میں نہیں کرنے لگا کوئی بغاوت صاحب
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *