پھر سن رہا تھا گزرے زمانے کی چاپ کو

پھر سن رہا تھا گزرے زمانے کی چاپ کو
بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس, میں
اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو
اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہو گئی
کیوں کر مٹائوں دل سے تری غم کی چھاپ کو
کتنا ہی بے کنار سمندر ہو، پھر بھی دوست
رہتا ہے بے قرار ندی کے ملاپ کو
پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئینے میں چوم لیا اپنے آپ کو
تعریف کیا ہو قامتِ دلدار کی شکیب
تجسیم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو
شکیب جلالی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *