لطف دیتا ہے ستم پر

غزل
لطف دیتا ہے ستم پر ترا نازاں ہونا
کاش آئے نہ کبھی تجھ کو پشیماں ہونا
باعثِ رنج نہ ہو جائے یہ شاداں ہونا
اُن کی جانب سے تو باقی ہے ابھی ہاں ہونا
موت سے مل کے گلے سیکھ لو فرحاں ہونا
’’عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا‘‘
میرا دل کہتا ہے روشن ہے مِرا مستقبل
چھوڑ دو حال پہ تم میرے پریشاں ہونا
پھڑپھڑاتے ہیں کہ ہو جائے رہائی حاصل
کون چاہے گا بھلا زینتِ زنداں ہونا
ایسا لگتا ہے کہ بستی ہے مِری جاں تجھ میں
مجھ سے برگشتہ کسی دم نہ مِری جاں ہونا
چاہیے معنی و مفہوم کی نیرنگی بھی
صرف کافی نہیں الفاظ کا چسپاں ہونا
ان کا اندازِ ستم بھی کبھی دیکھو راغبؔ
پھر مِرے حال پر انگشت بدنداں ہونا
اگست ۲۰۱۲ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *